﷽
منجانب فکرستان۔۔۔کیا مشِل اور اوباما کی یہ کہانی گھر گھر کی کہانی ہے ؟
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
یہ واقعہ میرے کزن نے مُجھے شادی کی تقریب میں سُنایا تھاباقی منظر کشی میرے دماغ نے کی ہے چونکہ میں بھی ایسے حادثہ سے گُذرچُکا ہوں۔۔۔ ہُوا ہوں کہ خاندان میں شادی کی ایک تقریب طے پاگئی تھی جس کیلئے ہمارے کزن نے آفس کے دوستوں اور اپنی پسند مشترکہ سے تقریب کیلئے کپڑے خریدے ۔خوشی خوشی بیوی کو دکھا یا ۔بیوی نے آنکھیں دِکھا تے ہُوئے ذرا تیز لہجہ میں کہا ۔۔تقریب میں یہ کپڑے پہنو گے؟ میاں کی ساری خوشی ہرن ہوگئی۔۔ اور چہرہ لٹک گیا۔۔بیوی کو احساس ہوجاتا ہے کہ میاں کو بُرا لگ گیا ہے ۔۔ مُسکراتے ہوئے بولیں میں کل خود مارکیٹ جاکرآپ کیلئے کپڑے خرید لاؤنگی ۔۔ میاں صاحب چُپ ہوکر چَھت کو دیکھنے لگتے ہیں ۔کزن نے تقریب والے دن چاہا کہ اپنی پسند کے کپڑے پہنے ،لیکن بیوی نے منُہ کو پھُلاتے ہُوے غُصّہ سےکہا ۔۔تُم مُجھے سمجھ ہی نہیں سکتے ۔ یہاں اس جملے کا کیا محل ؟ لیکن صاحب اس جملے نے ایسا اثر دکھایا کہ کزن صاحب ساری ہیکڑی بھول گئے ۔یہاں پر میرے ذہن میں عرب مُلک کی ایک ملکہ کے وُہ الفاظ یاد آگئے جو اُسنے اپنی دوست کینیڈا کی سابقہ خاتون اوّل کو دیئے تھے کہ چھوٹا مُطالبہ منوانے کیلئے میں ایک بار شوہر کے سامنے روتی ہوں ، بڑا مُطالبہ منوانے کیلئے مُجھے دو بار رونا پڑتا ہے ۔اسطرح میں اپنا ہر مُطالبہ منوا لیتی ہوں ۔
تقریب میں کزن نے ہنستے ہوئے دکھایا کہ دیکھو ہماری بیگم کس فتح مندی سے اِٹھلاتی پھر رہی ہیں کہ ہم اُنکی پسند کے کپڑے پہنے ہوئے ہیں ۔
اب آپ درج ذیل ایکسپریس نیوز میں شائع شُدہ تراشہ پڑھیں ۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اوباما نے اپنی پسند کی چھ ٹائیاں خریدیں خرید تے وقت یقیناً مِشل کی پسند کو بھی یقیناً مدنظر رکھا ہوگا ۔ سابقہ تجربہ کی بنا پر رد کئے جانے کے خدشے نے بھی سر اٹھایا ہوگا جسکے پیش نظر ہی تو چھ ٹائیاں خریدیں ہونگی ۔ لیکن مِشل کو ایک بھی پسند نہ آئی۔ اور اپنی پسند کی اُدھار ٹائی بھی چلے گی۔۔
دیکھا آپنےمرد کی پسند چھ بار ضرب کھانے پر بھی عورت کی پسند کو نہیں پکڑ سکی۔
دونوں کے خیالات میں فرق ۔
A۔دونوں کی سائیکی الگ الگ ہےB۔ دونوں میں مالٹے، مو سمی جیسا فرق ہے ۔C۔دونوں ایکدوسرے کی ضرورت ہیں ۔D۔ دونوں ایکدُوسرے کی محبت ہیں ۔
نوٹ:- خُواتین و حضرات پول ووٹنگ میں ضرور حصّہ لیں مگر اپنے تجربات کو مدنظر رکھ کر ووٹ دیجئے۔ اِنشااللہ4/ مارچ کو فائنل رزلٹ دیکھیں گے۔اور اگر کوئی اپنا تجربہ / خیال شیئر کرنا چاہے ۔ اُسکو ویلکم ہے۔۔۔۔۔۔۔
۔(خلوص کا طالب۔ایم۔ڈی)۔
۔(خلوص کا طالب۔ایم۔ڈی)۔
واہ واہ واہ۔۔۔ میری آنکھوں میں تو آنسو آ گئے۔۔۔ ھوتا تو ھر شادی شدہ بندے کے ساتھ یہی ہے لیکن محسوس آج کیا ہے۔۔۔ بھائی۔۔۔ کیوں دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا۔۔۔؟؟؟
ReplyDeleteزبردست تحریر۔۔۔ ماشااللہ۔۔۔
میرے نزدیک مرد اور عورت کا اختلاف مالٹے اور موسمبی کا سا ہے بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ ایک سکے کے دو پہلو ہیں کہ ایک کے بغیر دوسرا نامکمل ہے تو زیادہ بہتر ہوگا!
ReplyDeleteاختلاف رائے ہی تو زندگی کی رنگا رنگی ہے مگر تہذیب اور اخلاق کے دائرے میں ہو تو بہتر ہے!!!!!!
عبداللہ
محترم!
ReplyDeleteخواتین اور حضرات ہر دو ایک دوسرے سے جسمانی طور پہ تو مختلف ہیں ہی مگر یہ آپس کے باہمی معاملات میں ایک دوسرے سے زمین آسمان کی طرح مختلف ہیں۔ ازداوجی تعلقات سے لے کر زندگی کے عام معاملات پہ سوچنے پہ مرد و خواتین کی محسوسات بعید الطرفین کی طرح ای دوسر ے مخالف سمت پہ واقع ہیں۔ اور اسمیں پاکستانی ، بھارتی، ایشین یا یوروپی خواتین و حضرات کو کوئی اشتناء حاصل نہیں۔
فرق صرف اتنا ہے کہ خواتین کو اس بارے مکمل علم حاصل ہے جبکہ مرد اس بارے لاعلم اور سادہ لوگ ہیں
اس بارے میں میں نے کچھ تحقیق کر رکھی ہے۔ فی الحال آپ سے صرف ایک سوال ہے ۔
عام طور پہ کچھ سسر اور دامادوں میں غیر معمولی مماثلت کیوں پائی جاتی ہے؟۔ جبکہ ساس اور داماد میں تعلقات بہت کم اچھے ہوتے ہیں۔ دوسری طرف یہی مماثلت ساس اور بہو میں مفقود ہوتی ہے؟؟۔ جبکہ بہوئیں عام طور پہ اپنی ساسوں کے ساتھ زیادہ وقت گزارتی ہیں اور اسلئے انھیں ساس سے زیادہ متاثر ہونا چاہئیے۔
بھائی عمران اقبال حوصلہ افزائی کرنے اور اپنے خیالات سے نوازنے پر آپکا بُہت بُہت شُکریہ۔ ۔ ۔
ReplyDelete۔(خلوص کا طالب ایم۔ڈی)۔۔
بھائی عبدللہ آپنے اپنے خیالات سے نوازا آپکا بُہت بُہت شُکریہ۔ ۔(خلوص کا طالب ۔ایم ۔ ڈی)۔
ReplyDeleteبھائی جاوید گوندل آپ نے ایک سوال میں جو تین سوال اُٹھائے ہیں ۔ اس حوالے سے کبھی میں نے غور نہیں کیا۔ بہر حال جواب دینے کی کوشش کرتا ہوں۔ سوال نمبر ایک کا جواب۔ شاید اِسکی وجہ یہ ہو کہ دونوں بیرونی ماحول سے آشنا ہوتے ہیں ۔ سوال نمبر دو کا جواب۔ وہی عورت اور مرد کے سوچنے کا جُداگانہ انداز۔ سوال نمبر تین کا جواب۔ ساس بہو میں بیٹے پر/ شوہر پر قبضہ کا جھگڑا ہوتا ہے ۔ آپنے اپنے خیالات سے نوازا آپکا بُہت بُہت شُکریہ۔
ReplyDelete۔( خلوص کا طالب ۔ایم ۔ڈی )۔
......تُم مُجھے سمجھ ہی نہیں سکتے..
ReplyDeletewaisey tau baqol umer sharif "aik khatoon jis key das bachey they, un ka bhi yehi shikwa tha keh sachi mohabbat nahin mili"
walla ilm
بھائی اجنبی آپکا تبصرہ کرنا بُہت اچھا لگا کہ آپنے عُمر شریف شو کے حوالے سے بات کو شئیر کیا ۔ آپکا بُہت شُکریہ۔ (خلوص کا طالب۔ ایم ۔ ڈی) ۔
ReplyDeleteازداوجی تعلقات سے لے کر زندگی کے عام معاملات پہ سوچنے پہ مرد و خواتین کی محسوسات بعید الطرفین کی طرح ای دوسر ے مخالف سمت پہ واقع ہیں۔
ReplyDeleteاس کی سب سے بڑی وجہ تو تربیت میں والدین اور معاشرے کا فرق رکھنا ہے!
جہاں ایسا نہیں وہاں مرد اور عورت کی سوچ میں فرق کم ہی پایا جاتا ہے رہی پسند ناپسند کی بات تو وہ تو دو مرد اور دوعورتوں کی بھی ایک نہیں ہوگی،
جینیٹیکلی ڈفرینس تو بہر حال ہوتا ہی ہے،مگر یہ نیچر کی خوبصورتی ہے وجہ نزاع نہیں!!!!!!!!!
Abdullah
عبدللہ بھائی آپنے کہا اس میں معاشرے کا فرق اور والدین کی کا تربیت کا اہم رول ہے ۔ اور جینیٹکلی طور پر ہر انسان دوسرے انسان سے مختلف ہے ۔ بُہت شُکریہ کہ آپنے اپنے خیالات سے نوازا ۔ (خلوص کا طالب ۔ ایم ۔ ڈی )۔
ReplyDeleteدامادوں اور سسروں میں مماثلت درمیان کی کڑی یعنی سسر کی بیٹی اور داماد کی اہلیہ ہیں جن کا وجود پاکستانی ریزرو معاشرے میں پس منظر میں چلا جاتا ہے مگر داماد اور سسر کے مزاج میں مماثلت پیدا کرنے میں نمایاں ہو جاتا ہے۔
ReplyDeleteلڑکیوں کے لئیے انکے باپ شعوری یا لاشعوری طور پہ ایک آئیڈل شخصیت ہوتے ہیں۔ اور وہ شادی کے بعد شعوری یا لاشعوری طور پہ اپنے خاوند میں وہی عادات ، دوسروں کے ساتھ معاملات، رہن سہن، بودوباش اور لباس وغیرہ اپنے باپ کو ذہن میں رکھتے ہوئے دیکھنا چاہتی ہیں۔
ٹائی کی گرہ اور رنگ سے، شلوار قمیض کے کپڑے اور رنگ سے لیکر لوگوں سے لین دین اور تعلقات میں خاوند کو اپنے رنگ میں رنگنے میں کامیاب رہتی ہیں۔
یوروپ میں بھی قدرے تبدیلی سے معاملہ وہی ہے۔ میں نے کئی ایک دفعہ اس موضوع پہ بات کرتے ہوئے ایک ٰیوروپی خواتین سے اس بارے میں سوال کیا ہے کہ آخر ایسا کیوں ہوتا ہے؟ کہ آپ دعاوہ تو یہ کرتی ہیں کہ ہمارے مرد ہماری ایک نہیں سنتے مگر درحقیقت آپ تقریبا سبھی خواتین اپنے مرد یعنی خاوند کی زندگی کو اپنے باپ کے طور طریقوں پہ چلانے کی سرتوڑ کوشش کرتی ہیں۔
اکثر خواتین کا جواب ایک ہی جیسا تھا اور جواب سن کر آپ حیران ہونگے ۔ یوروپی خواتین ایسا کرنے سے صاف انکار کردیتی ہیں اور اگلے ہی لمحے ہنس کر کہہ دیتی ہیں کہ ہم شادی سے قبل ہی ایسا مرد ڈھوڈنڈتی ہے جس میں ہمارے باپ کی مماثلت ہو۔
یعنی پاکستانی خواتین اپنے خاوند کو اپنے والد کی طرح عادات اپنانے میں بسا اوقات کامیاب رہتی ہیں اور مغربی خواتین کو چونکہ اپنے ہونے والے خاندوں سے پہلے سے جاننے کا موقع ملتا ہے اور وہ مرد ہی ایسا ڈھونڈنے کی کوشش کرتی ہیں کہ جس میں انھیں اپنے باپ کی مشابہت یا مماثلت نظر آتی ہے۔
اسلئیے کوئی سونے کا کپڑا بھی خرید لائے ہماری خواتین کی اکثریت اسے ناپسندیدہ قرار دے دیتی ہیں کیونکہ انکے والد محترم کی پسند وہ نہیں ہوتی جو آپ کی ہے۔
جبکہ ایک بیٹی کے لئیے اسکی ماں آئیڈیل نہیں ہوتی اسی لئیے ساس بہو کا روایتی جھگڑا کبھی ختم نہیں ہوتا۔ جبکہ میاں اپنی والدہ کو ہمیشہ ایک آئیڈیل خاتون سمجھتے ہیں (جو کہ بری بات نہیں مگر ماں اور بیوی کے درمیان ایک توازن رکھنا چاہئیے)۔ اسلئیے اکثر میاوں حضرات کو ہمیشہ اپنی اماں کے بنے ہوئے کھانوں کی یاد ستاتی رہتی ہے یا اسطرح کے دیگر واقعات جن پہ بیگم کا چڑ اٹھنا فرض منصبی ہوتا ہے۔
(خواتین سے معذرت کے ساتھ)
جاوید گوندل بھائی ،آپکا تبصرہ پڑھا تو مُجھے یاد آیا کہ ماہر نفسیات سگمنڈ فرائیڈ نے بھی اپنے تجربات سے کچھ اِسی طرح کےنتائج نکالے تھے ۔ اتنا اچھا تبصرہ کرنے پر میں آپکا بُہت شُکر گُذار ہوں ۔ ۔(خلوص کا طالب ۔ایم ۔ ڈی)۔
ReplyDelete