منجانب فکرستان: پڑوسی ملک میں: اپنے ملک میں
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
بھارت کے سینئر کالم نگارظفر آغا نے سیاست اور کرپشن پر کالم لکھا ہے، جس کا حاصل یہ ہے کہ برسرِ اقتدار کی کرپشن کا کوئی کیس پکڑ میں آجاتا ہے تو اپوزیشن چور چور کا خوب شور مچاتی ہے،تاہم یہ سارا شور شراپا اس احساس کے تحت نہیں ہوتا ہے کہ یہ قوم کا پیسہ ہے۔ بلکہ سارا درد یہ ہے کہ یہ پیسہ ہماری جیب میں کیوں نہیں آیا، ہم اقتدار میں کیوں نہیں ہیں؟؟ یوں چور چور کا شور مچاکر اقتدار حاصل کرنے کے بعد خود جیبیں بھرنے لگتے ہیں ،لیکن پھر اِنکا بھی کوئی کیس پکڑ میں آجاتا ہے تو اب نئی بننے والی اپوزیشن چور چور کا شور مچاتی ہے ۔۔غرض کہ کرپشن کیلئے اپوزیشن اور اقتدار کے درمیان سی سا جیسا کھیل جاری رہتا ہے لیکن اس کھیل کے دونوں جانب واقع اپوزیشن اور اقتدار کے کرپشن کا سارا بوجھ بیچ میں واقع عوام کو برداشت کرنا پڑتا ہے ۔۔۔
بھارت کے تمام سیاست دان عوامی لوک پال بل منظور نہیں ہونے دیتے کہ اس طرح انکا جاری سی سا کا یہ کھیل رُک جانے کا اُنہیں اندیشہ ہے، ایسے میں قوم کا درد رکھنے والا کوئی انا ہزارے جیسا سرپھرا کرپشن کے خلاف آواز بلند کرتا ہے تو چالاک سیاست دان اسکے ساتھیوں کو خرید کر اُس سر پھرے سے کرپشن کرپشن کے بولوں کی جگہ الیکشن الیکشن کے بول پڑا وا دیتے ہیں اور یوں سیاست دان ابھر نے والے عوامی مومنٹم کو توڑ کر رکھ دیتے ہیں ۔۔۔
پڑوسی مُلک بھارت کے بد سیاستدانوں کی بُہت بُرائی کرلی، اب ہم اپنے مُلک کے شریف سیاستدانوں پر بزریعے جنگ ایک نظر ڈالتے ہیں، جو آج 2 مئی کے اخبار میں شائع ہوئی ہے۔۔
بشکریہ 

اسلام آباد (عامرمیر) میاں نوازشریف اور شہباز شریف سمیت ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کے کم از کم 18 سیاستدان مہران گیٹ اسکینڈل میں نامزد ہونے کے باوجود آئندہ انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔ مہران گیٹ اسکینڈل کے تحت آئی ایس آئی نے 1990کے انتخابات سے قبل ان سیاستدانوں میں لاکھوں روپے تقسیم کئے تھے جبکہ آئندہ انتخابات میں شریک یہ سیاستدان اس اسکینڈل سے آج تک اپنے آپ کو کلیئر نہیں کرا سکے۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں 3رکنی بنچ نے 6ماہ قبل اصغرخان کیس کا تاریخی فیصلہ سنایا تھا اور اس بنچ کے احکامات کی روشنی میں ان 18سیاستدانوں نے ایف آئی آر کی انکوائری کا سامنا بھی کرنا ہے۔ فاضل عدالت نے 1990 میں الیکشن مہم چلانے کے لئے آئی ایس آئی سے مبینہ طور پر رقوم وصول کرنے والے سیاستدانوں کے خلاف قانونی کارروائی کا حکم بھی دیا تھا۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے فیصلے میں حکم دیا تھا کہ ایف آئی اے اصغرخان کیس میں رقوم وصول کرنے والے تمام سیاستدانوں کے خلاف شفاف انکوائری کرے اور ثبوت ملنے پر ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے۔ عدالت عظمیٰ نے مہران بینک کے مالک یونس حبیب کی طرف سے آئی ایس آئی کو رقوم کی فراہمی پر ان کے خلاف بھی کارروائی کا حکم دیا تھا تاہم آج 6 ماہ بعد بھی ایف آئی اے نے نامعلوم وجوہات کی بنا پر نہ تو اس حوالے سے تحقیقات کا آغاز کیا اور نہ ہی فنڈز وصول کرنے والے سیاستدانوں کے خلاف کارروائی کی۔ ایف آئی اے کے اس رویئے کے باعث یہ 18سیاستدان خود کو کلیئر کرائے بغیر آئندہ انتخابات میں شریک ہورہے ہیں۔ مہران گیٹ اسکینڈل میں ملوث ان 15سیاستدانوں میں نوازشریف شہبازشریف جاوید ہاشمی آفتاب شیرپاؤ لیاقت بلوچ عابدہ حسین لیاقت علی جتوئی آفاق احمد سید مظفرحسین شاہ میر ہمایوں مری پیر نورمحمدشاہ اسماعیل راہو نادر مگسی جام معشوق اور دوست محمد فیضی شامل ہیں۔ 24جولائی 1994 کو اس وقت کے آئی ایس آئی چیف جنرل اسد درانی کے حلف نامے کے مطابق نوازشریف کو 35 لاکھ روپے لیفٹیننٹ جنرل رفاقت (جی آئی کے الیکشن سیل) 56لاکھ روپے میر افضل ایک کروڑ غلام مصطفی جتوئی 50لاکھ جام صادق علی 50لاکھ محمدخان جونیجو 25لاکھ روپے پیر پگاڑا 20لاکھ عبدالحفیظ پیرزادہ 30لاکھ یوسف ہارون 50لاکھ سید مظفر حسین شاہ 3لاکھ عابدہ حسین 10لاکھ ہمایوں مری 54لاکھ جماعت اسلامی 50لاکھ الطاف حسین قریشی اور مصطفی صادق 5لاکھ ارباب غلام آفتاب 3لاکھ ارباب فیض محمد 3لاکھ ارباب غلام حبیب 2لاکھ اسماعیل راہو 2لاکھ لیاقت بلوچ 15لاکھ جام یوسف ساڑھے سات لاکھ جبکہ نادر مگسی کو 10لاکھ روپے ادا کئے گئے تھے۔ یونس حبیب کے عدالت میں پیش کئے جانے والے بیان کے مطابق سیاستدانوں اور دیگر افراد کو یہ رقوم 1991 سے 1994 کے درمیان ادا کی گئی تھیں۔ جنرل مرزا اسلم بیگ کو 140ملین روپے جام صادق علی کو 80ملین روپے الطاف حسین کو 20ملین روپے ایڈووکیٹ یوسف میمن کو جاویدہاشمی اور دیگر کو رقوم کی ادائیگی کے لئے 50ملین روپے جام صادق علی 150ملین روپے لیاقت علی جتوئی کو ایک لاکھ وزیراعلیٰ سندھ کو امتیاز شیخ کے ذریعے 12ملین آفاق احمد کو 0.5ملین روپے 1993 میں وزیراعلیٰ سندھ کو امتیاز شیخ کے ذریعے ایک لاکھ سابق وفاقی وزیر اجمل خان کو 1.4ملین روپے 1993میں سابق وزیراعظم نواز شریف کو 3.5ملین 27ستمبر 1993 کو نوازشریف کو 2.5 ملین روپے جام معشوق علی کو 0.5ملین روپے دوست محمد فیضی کو 10لاکھ روپے جام حیدر 2ملین روپے جام معشوق 3ملین روپے سرتاج عزیز کے بیٹے عدنان کو 10لاکھ روپے نوازشریف اور اتفاق گروپ آف کمپنیز کو 200ملین روپے سردار فاروق لغاری کو 12 دسمبر 1993 کو 30ملین روپے 6جنوری 94 کو 2.0856 ملین جبکہ 10مارچ 1994 کو 1.92ملین روپے دیئے گئے۔ اصغرخان کیس کی سماعت کے دوران یونس حبیب نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ انہوں نے خود نوازشریف کو ان کی لاہور کی رہاشگاہ پر 2.5 ملین روپے ادا کئے جبکہ شہبازشریف کو ٹیلی گرافک ٹرانسفر کے ذریعے 2.5ملین روپے فراہم کئے گئے۔ یونس حبیب نے بتایا کہ کھاتوں میں رقوم میں اضافہ کے لئے آفتاب شیرپاؤکو بڑی رقم دی گئی۔ مسلم لیگ ن کی جانب سے اگرچہ یونس حبیب کے ان بیانات کو جھوٹ کا پلندہ قرار دیا گیاتاہم جنرل (ر) اسلم بیگ اور جنرل (ر) اسد درانی نے اپنے حلف ناموں میں نوازشریف کی جانب سے رقوم کی وصولی کی تصدیق کی گئی۔ نوازشریف نے 25اکتوبر 2012کو ایک نجی ٹی وی چینل کے ٹاک شو میں دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے نہ تو کبھی یونس حبیب سے ملاقات کی اور نہ ہی ان سے رقم وصول کی انہوں نے یاد دہانی کرائی کہ ان کے خاندان کی ملکیتی صنعتوں نے 1990 کے دوران 920 ملین روپے ٹیکس ادا کیا تھا اور ان پر آئی ایس آئی سے 1990 کے انتخابات کے لئے 2.5 ملین روپے کی وصولی کا الزام محض لطیفہ ہے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ ان کی جماعت اس حوالے سے ایف آئی اے کی تحقیقات کی مخالفت کیوں کر رہی ہے تو انہوں نے کہاکہ چودھری نثار علی خان کو ایف آئی اے کے معاملات چلانے والے بعض افراد کے حوالے سے تحفظات ہیں۔{پڑھنے کا شُکریہ رب راکھا}
|