منجانب فکرستان: غوروفکر کے لئے
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اباجان کی طرف سے شادی کرنے کا خط آنے پر اماں جان کی ذہنی
حالت کیا ہوئی ہوگی اماں جان ہی جانتی ہونگیں۔ماموجان کو جو
نوکری ملی تھی اُس میں تنخواہ بہت کم تھی مامی جان کا خیال تھا کہ
درویش کے والدآجائیں گے تو وہ بھی کہیں نہ کہیں کُچھ کریں
گے یوں زندگی کی گاڑی چلنے گی ،اب تو معاملہ دوسرا ہو گیا ،
مامی جان کو ہم ماں بیٹا بوجھ لگنے لگے تھے لیکن اب حل کیا ہو؟
دن گزرنے کے ساتھ ساتھ نند بھاوج تنازعازت بھی بڑھنے لگے۔
اماں جان کی خالہ کا ایک بیٹا تبلیغی جماعت میں تھا اُس کی بچپن
میں ہی نسبت ٹھرائی گئی تھی لیکن ماموں کے یہ خالہ ذات بھائی
شادی نہیں کرنا چاہتے تھے یا ابھی نہیں کرنا چاہتے تھے تاہم لڑکی
والے دباؤ ڈال رہے تھے کہ ہمیں اور بچوں کی شادی بھی کرنی
ہے ،اس کے لئے ہم نہیں رُکیں گے۔خالہ ذات بھائی کا تبلیغی
جماعت والا دوست کراچی میں رہتا تھا یہ بات ہے 1946 کی یعنی
پاکستان بنے سے پہلے کی بات ہے ،خالہ ذات بھائی شادی کرنے
کے دباؤ کو برداشت نہ کرتے ہوئے اپنے تبلیغی جماعت کے
دوست کو خط لکھا اور کراچی دوست کے پاس چلے گئے، حقیقی
ماموجان جب پاکستان جا رہے۔
تھے خالہ جان سے بھائی کا پتہ لے لیا ،دونوں بھائیوں میں خطوط کا
کا تبادلہ ہورہا تھا ، اماں جان نے نند بھاوج تنازعات سے جان
چُھڑانے کے لئے اماں جان نے ماموں جان سے کہا خالہ ذات
بھائی کو خط لکھیں کہ میں اُن کے پاس کراچی آنا چاہتی ہوں،
امید ہے کہ کراچی میں کسی اسکول میں پڑھانے کی نوکری مل
جائے گی۔ماموں جان کے بلانے پر اماں جان نے کراچی جانے کی
تیاری شروع کردی ، ماموں جان نے کراچی جانے والی ٹرین پر
سوار کرادیا۔ کراچی پہنچنے پر ایک قلی کو سامان دیا، اُس کے ساتھ
چلنے لگیں، کسی با ت پر ضد کر کے میں روتے ہوئےچل رہا تھا
اماں جان قلی جتنی تیز نہیں چل پارہی اچانک اُنہیں احساس ہُوا
کہ بچے کے رونے کی آوار نہیں آرہی ہے ، مڑکر دیکھا تو میں
نظر نہیں آیا اماں جان کے اوسان خطا ہوگئے،وہ پاگل کی طرح
اِدھر اُدھر بھاگنے لگیں، قلی اور سامان کو بھول گئیں کہ اُنہیں
میرے رونے کی آواز آئی وہ میری آواز کی طرف دوڑیں میں
انہیں نظر آگیا 😀 قلی بھی سامان لئے اماں جان کو ڈھونتے
ہوئے پہنچ گیا ،مسلم خواتین کے برقعے وہاں کی مقامی تہذیب کے
عکاس ہوتے ہیں مثال افغانی برقعے، بنگلہ دیشی برقعے اسی طرح
حیدرآبادی برقعے بوہری برقعوں سے ملتے جلتے طرز کے ہیں جب
ہم اسٹیشن سے باہر نکلے ، ماموں جان نے اماں کو حیدرآبادی
برقعے کی وجہ سے فوراً پہچان لیا۔۔
یاد سلامت صحبت باقی/قسط # 5 کے لئے۔
خالق کائنات ہمیشہ مہربان رہے ۔اب اجازت۔
No comments:
Post a Comment