منجانب فکرستان: غوروفکر کے لئے
گزشتہ قسط میں یہ تو کہا گیا کہ حالات کی مجبوری کے تحت ساتویں
جماعت سے اسکول چھوڑنا پڑا تھا،سوال یہ ہے کہ ایسی کیا مجبوری
تھی کہ اسکول چھوڑ نا پڑا ؟
اس کے لئے مجھے ماضی میں جانا پڑے گا۔
حیدرآباد ایک نوابی خود مختار ریاست تھی، جسے آصف جاہی نے
1724 میں مغلوں کی حکومت سے آزادی حاصل کرکے ایک
خود مختار ریاست قائم کی تھی،سنہ 1852 میں انڈیا برطانوی
کے تحت آگیا تاہم ریاست حیدرآباد کی خودمختاری پرکوئی آنچ
نہیں آئی تھی،ریاست کے برطانوی سے قریبی تعلقات تھے اِس
کی مثال یہ ہے کہ دوسری عالمی جنگ میں ریاست کی فوج نے
برطانیہ کی طرف سے حصّہ لیا ،والد صاحب ریاست کی فوج میں
شامل تھے یوں والد صاحب نے دوسری عالمی جنگ میں حصّہ لیا،
جنگ 2 ستمبر 1945 کو ختم ہوئی جس کے تھوڑے دنوں بعد والد
والد صاحب نے فوج سے ریٹائرہونے کا فیصلہ کیا ،جس کی کاروائی
جاری تھی کہ 11 ستمبر کو 1948 کو قائداعظم کا انتقال ہُوا اور
13ستمبر کو انڈیا نے ریاست حیدرآباد دکن پر حملہ کردیا ریاست
کی فوج نے صرف پانچ دنوں تک مراحمت کر سکی 17ستمبر کو انڈیا
نے ریاست حیدرآباد پر قبضہ کر لیا۔ ریاست میں مسلمان اقلیت
میں اور ہندو اکثریت میں تھے مسلمانوں کی املاک و عصمتیں لوٹی
جانے لگیں ، والد صاحب کی پنشن کی کاروائی میں دیر ہونے لگی
ایسے میں میرے ماموجان ہمارے گھر آئے،والد صاحب اور اماں
جان سے کہا کہ میں بمع فیملی پاکستان جا را ہوں آپ بھی ہمارے
ساتھ چلیں،والد صاحب نے کہا ، میری پنشن کی کاروائی آخری
مرحلے میں ہے،آپ لوگ یہاں سے نکلو کہ حالات خراب سے
خراب ہوتے جا رہے ہیں ،جیسے ہی مجھے پنشن کے پیسے ملے
گے میں بھی پاکستان پہنچ جاؤں گا۔اماں جان کے مطابق
میں اُس وقت سوا دو سال کا تھا،ہم سب لوگ بھاولنگر باڈر سے
پاکستان پہنچ گئے جبکہ والد صاحب پنشن کے پیسوں کی خاطر حیدرآباد میں رُکے رہے ۔۔۔
بشرطے کہ زندگی ۔۔۔ اگلی قسط#3۔
۔اب اجازت۔
No comments:
Post a Comment