منجانب فکرستان: غوروفکر کے لئے
جین، لوٹن کبوتر ،اچانک، مذہب، فلسفہ،سائنس،
نفسیات،جنسیات،تہذیب و ثقافت۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
حالات کی مجبوری،ساتویں جماعت سے ہی اسکول چھوڑ،کام پر جانے
لگا،نائٹ اسکول میں داخلہ لے لیا (1960کے دور میں کراچی میں
نائٹ اسکول ہُوا کرتے تھے جو پرائیویٹ میٹرک کراتے تھے )
یوں دن میں کام رات میں نائٹ اسکول جانا ٹہرا۔
ہم لیاری کے جس علاقے میں رہتے تھے وہ نیاآباد کہلاتا ہے،
یہاں کی آبادی میں میمن،سندھی،بلوچی،مکرانی، وغیرہ شامل ہیں،
یہاں ابراہیم کی لائبریری غالباً ابھی بھی موجود ہے،میری جین
میں بھی پڑھنے اور گانے سُننے کا شوق موجود ہے،اِس لائبریری
کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں سے رومانی،تاریخی،جاسوسی،ناولوں
کے علاوہ ہر قسم کے ڈائجسٹ،رسالے بھی کرائے پر مل جاتے
ہیں،مجھے میرے شوق نے اِس لائبریری کا لوٹن کبوتر بنا دیا وہ
یوں کہ پہلے پہل تاریخی ناول پڑھنے کی کوشش کی تھی تاہم
یہ بھاری پتھر صرف چوم کر چھوڑ دیا،پھر باری آئی رومانی ناولوں
کی ان ناولوں کو بھی میرا ذہن جذب کرنے سے انکاری تھا یوں
جاسوسی ناولوں کی باری آگئی، یہ بھی زیادہ دن ساتھ نہ نبھا سکے
اِن جاسوسی ناولوں میں لفظ"اچانک"اتنا زیادہ استعمال ہوتا ہے کہ
پڑھنے والے کے ذہن میں اُٹھتے بیٹھتے،چلتے پھرتے یہ لفظ گونجنے
لگتا ہے جیسے کہ ذہن میں کوئی خرابی ہوگئی ہو، میں ڈر گیا اور
میں نے جاسوسی ناول پڑھنے چھوڑدئیے ،(تاہم میں یہ تو نہیں
کہہ سکتا کہ جاسوسی ناول لکھنے والے ابن صفی کے ذہن میں
جو خلل واقع ہُوا تھا اُس کا سبب یہ لفظ " اچانک " رہا ہوگا )
جین کی پڑھنے کی پیاس نے ڈائجسٹوں اور رسالوں کی راہ دِکھائی
یوں میری جین کی پیاس بجھنی لگی کہ اِن ڈائجسٹوں اور رسالوں
میں مُجھے مذہب،فلسفہ،سائنس،نفسیات،جنسیات،اورتہذیب و ثقافت
جیسے مضامین پڑھنے کو ملے جس سے میرے ذہن کی آبیاری
ہونے لگی ۔اب اجازت۔