Image result for monument valley
ہر چیز سے عیاں ہے،ہرشے میں نہاں ہے،خالِق کائنات، مالِک کائنات
عقلِ کُل،توانائی کُل، ہمہ جہت، ہمہ صِفت،خالِق کائنات، مالِک کائنات
آنکھیں کہ جِن سے میں دیکھا ہوں میری نہیں، عطائے خُداوندی ہے
  پاؤں کہ جِن سے میں چل تا ہوں میرے نہیں،عطائے خُدا وندی ہے
غرض یہ کہ میرے  وجود کا ذرہ  ذرہ   میرا  نہیں ،عطائے خُداوندی ہے
میرے خالِق میرے مالکِ میرے پروردگارانِ نعمتوں کا بے انتہا شُکریہ  


Friday, April 12, 2013

" انتخاب "

 منجانب فکرستان: مشہور دانشوروادیب طارق علی کی گفتگو سے انتخاب
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
 طارق علی کی دنیا ئے سیاست پر گہری نظر ہے وہ سیاست اور تاریخ پر 14 کتابیں لکھ چُکے ہیں۔۔ اِس سیر حاصل گفتگو میں ، بھٹوکی پھانسی ،متناسب نمائندگی ،پاکستانی سیاست،جنوبی امریکہ، ،عرب اسپرنگ،ترکی، سرمایا دارنہ نظام ،بھارت امریکہ تعلقات،اسٹیبلشمنٹ ، فوج، میڈیا غرض کہ کئی باتوں پر اپنی رائے دی ہے،
تاہم    میں انکی کہی ہوئی باتوں میں سے  صرف عمران خان اور ہو گیو شاہویز کے بارے میں کئی باتیں دوستوں سے شئیر کر رہا ہوں۔

طارق علی جس پینل کاحصہ تھے، اس میں شامل اراکین سے جب پوچھا گیا کہ 

آیندہ الیکشن میں وہ کس کو ووٹ دینا پسند کریں گے تو اس سوال کو اور کسی نے تو 


قابل اعتنا نہیں جانا مگر طارق علی نے واشگاف لفظوں میں عمران خان کو ووٹ 


دینے کی بات کردی۔ طارق علی نے فیسٹیول میں جو گفتگو کی، اس میں ان کا عمران 


خان کے حق میں بولناسب سے زیادہ زیر بحث رہا ۔ان سے بات چیت کا سلسلہ 


شروع ہوا توپوچھا گیاکہ ’’ آخر آپ کس بنیاد پر عمران کو ووٹ دینے کی بات 


کرتے ہیں؟‘‘اس سوال پر ان کا جواب تھا’’عمران اگر اقتدار میں آگیایا اس نے 


اتنے ووٹ حاصل کرلیے کہ اس کی جماعت اپوزیشن میں آگئی تو اس سے نوجوان 


طبقے کو کچھ فائدہ ہوگا اور وہ سوچیں گے ، ہم بھی اٹھ سکتے ہیں۔

۔میں نہیں سمجھتا کہ عمران اسٹیبلشمنٹ کا آدمی ہے۔عمران کواسٹیبلشمنٹ کا آدمی 

کہنے والے زرداری کے خلاف بات نہیں کرتے۔اس کے ساتھ، بہت سے انسانی 


حقوق والے تصویریں بھی کھنچواتے ہیں ، ملتے بھی ہیں۔ باہر جاکر اس کی تعریف 


بھی کرتے ہیں۔زرداری سے زیادہ اسٹیبلشمنٹ کا آدمی کون ہوسکتا ہے۔



عمران یہ کہتا تو ہے کہ تعلیم اور صحت کے شعبے کو ٹھیک کریں گے۔ درست ہے ‘اس کے پاس پورا پروگرام نہیں لیکن کچھ چیزیں بھی وہ کردے تو ملک آگے بڑھے گا۔عمران سے بہتر متبادل اس وقت مجھے کوئی دوسرا نظر نہیں آتا۔

اوباما پر میں نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ بش کی پالیسیوں کو اس نے جاری رکھا ۔

صرف اکا دکا مسئلوں پر اتفاق نہیں۔بش نے کہا بھی ہے کہ اوباما اس کے کام کو 


آگے لے کر جارہا ہے۔اور یہ سچ ہے۔ پاکستان میں بھی یہی حال ہے۔پیپلز پارٹی 


اور ن لیگ میں فرق نہیں۔دونوں ایک جیسی باتیں کرتے ہیں۔ یہ پارٹیاں نہیں دو 


مختلف قبیلے ہیں، یا جیسے کرکٹ کلب ہوتے ہیں، میں اس کلب کو پسند کرتا ہوں، 


اور دوسرا کسی اور کرکٹ کلب کو پسند کرتا ہے۔یعنی عادت اور پسند کا معاملہ ہے، 


اصول اور آئیڈیولوجی کی بنیاد پران جماعتوں کی حمایت کوئی نہیں کرتا۔‘
سوویت یونین ٹوٹنے کے بعد لیفٹ نے متبادل پالیسی نہیں بنائی۔اٹلی جہاں دنیا کی 

سب سے بڑی کیمیونسٹ پارٹی ہوتی تھی، ادھر بھی اب کنزرویٹو پارٹی ہے، جو سرمایہ 


دارانہ نظام کے ساتھ ہے۔سرمایہ داری نظام سخت بحران میں ہے لیکن افسوس اس 


کے باوجود اس کا متبادل نہیں پیدا ہوسکا۔یہ متبادل تب آئے گا، جب نیچے سے کوئی 


نئی لہر اٹھے گی۔یونان میں کچھ اٹھی تو سب گھبرا گئے۔یورپی ملکوں نے یونان کا 


گھیرا کرلیا۔SYRIZAترقی پسند پارٹی تھی، اس کے لیڈر Alexis Tsipras سے 


پوچھا گیا کہ آپ دنیا میں کس کو پسند کرتے ہیں تو اس نے کہا کہ وینزویلا کے رہنما 


ہوگو چاویزکو۔
اس سے سارا یورپ گھبرا گیا کہ اگر جنوبی امریکا کی یہ بیماری اور پھیلی تو کیا ہوگا۔

فرانس کے صدر اور جرمنی کے چانسلر نے الیکشن میں مداخلت کی اور کہا کہ اگر اس 


پارٹی کو منتخب کیا گیا تو یونان ختم ہوجائے گا۔ ہم یہ کردیں گے، یورو سے نکال دیں 


گے۔اس طرح یونان میں تبدیلی کا راستہ روکا گیا۔اس سے یونان کا کچھ فائدہ نہیں 


ہوا اور ادھر حالات دن بدن خراب ہوتے جارہے ہیں۔یورپ میں معاشی صورت 


حال غیرمستحکم ہے لیکن یونان کے علاوہ لیفٹ نے کہیں بھی صورت حال سے فائدہ 


نہیں اٹھایا۔
دوستو: ایکسپریس اخبار کے لنک پر جائیں،جہاں دُنیا کا سیاسی منظرنامہ بزبانِ طارق علی موجود ہے جس سےآگہی میں یقیناً اضافہ ہوگا۔۔۔اتفاق کرنا  یا نہ کرنا وہ اپنے اختیار میں ہے۔ اب اجازت دیں ۔  
{ پڑھنے کا شُکریہ ۔۔رب راکھا }