منجانب فکرستان:کسی شخص پر دُعاؤں میں یاد رکھنے کی ذمہ داری ڈالنا کہاں تک صحیح ہے؟؟؟
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
بُہت سے الفاظ یا جملے جب عام بول چال میں کثرت سے استعمال ہو نے لگتے ہیں، تو ان کے معنوں میں فرق آجا تا ہے۔" دُعاؤں میں یاد رکھنا " ایک ایسا ہی جملہ ہے جو آجکل کثرت سے بولے جا نے والا جملہ ہے،اس جملے کے معنی میں اتنا زیادہ فرق آگیا ہے کہ ایک طرح سے یہ بے معنی ہوکر رہ گیا ہے۔شروع شروع میں اس "جملے" کو کسی خاص مسئلے مثلاً بیماری سے صحت یابی، ،کاروبار ،نوکری وغیرہ کیلئے قریبی رشتے دار یا خاص الخاص دوست ایک دوسرے سے نماز میں خصوصی دُعا کیلئے کہتے تھے، اور جس سے کہا جاتا تھا وہ اپنے پر فرض سمجھ کر اُسے ادا کرتا تھا یعنی اُس شخص کا نام لیکر اُس مسئلے کے حل کیلئے دُعا کرتا تھا ،پھر یہ جملہ عام رواج پا گیا تواب یہاں پر آکر اس جملے میں سے اسکی اصلی خصوصیت یعنی خصوصی مسئلے کیلئے دُعا والا تصور نکل گیا ۔۔۔
بازار سے کوئی چیز خریدی دُکاندار کہہ رہا ہے دُعاؤں میں یاد رکھنا یا خریدار دُکاندار سے کہہ رہا ہے دُعاؤں میں یاد رکھنا ،کسی سے ملاقات ہوئی ختم ہونے پر خُدا حافظ یا اللہ حافظ کہنے کی بجائے دُعاؤں میں یاد رکھنا کہنے کا رواج بڑھتا جا رہا ہے، جواباً لوگاثبات میں سر ہلاتے ہیں یعنی ہاں یاد رکھیں گے۔ اس طرح آپ ذمہ داری لے لیتے ہیں کہ آپ اُس شخص کو یاد رکھ کر اُس کیلئے دُعا کریں گے ۔۔ دن بھر میں نہ جانے کتنے لوگوں سے یہ جملہ سننے کو ملتا ہے کئی لوگوں کا تو یہ تکیہ کلام بن گیا ہے،آپ کس کس کو یاد رکھیں گے؟؟ نتیجاً یہ جملہ رسمی اور بے معنی ہوگیا ہے۔ اس لیے۔۔کسی شخص پر دُعاؤں میں یاد رکھنے کی ذمہ داری ڈالنا کہاں تک صحیح ہے ؟؟؟
درج بالا خیالات سے اتفاق کرنا ضروری نہیں ہے۔ اب اجازت دیں ۔آپکا بُہت شُکریہ ۔(ایم-ڈی)