Image result for monument valley
ہر چیز سے عیاں ہے،ہرشے میں نہاں ہے،خالِق کائنات، مالِک کائنات
عقلِ کُل،توانائی کُل، ہمہ جہت، ہمہ صِفت،خالِق کائنات، مالِک کائنات
آنکھیں کہ جِن سے میں دیکھا ہوں میری نہیں، عطائے خُداوندی ہے
  پاؤں کہ جِن سے میں چل تا ہوں میرے نہیں،عطائے خُدا وندی ہے
غرض یہ کہ میرے  وجود کا ذرہ  ذرہ   میرا  نہیں ،عطائے خُداوندی ہے
میرے خالِق میرے مالکِ میرے پروردگارانِ نعمتوں کا بے انتہا شُکریہ  


Thursday, October 14, 2010

کاغذ کے بے جان ٹُکڑے (افسانہ

فکرستاں چینل سے میں ہوں آپکا ساتھی آپکا دوست "ایم ۔ ڈی " آج میں آپکی ملاقات ایک نئے افسانہ نگار سے کرارہا ہوں وہ اپنی پہلی تخلیق لیکر آئے ہیں یعنی پہلا نشہ اور پہلا خمار والی بات ہے ۔ جی جناب تو سنائے اپنا لکھا ہوا افسانہ ۔۔۔ذرا جھجک محسوس ہورہی ہے ۔۔۔شروع شروع میں ایساہی ہوتا ہے ،چلئے سنائے ۔۔۔ شمسہ نفسیات کی پروفیسرتھیں ،تھیں تو وہ 46 سال کی لیکن لگتیں 35/36کی تھیں خوبصورت ہونے کی وجہ سے پروانے منڈلاتے تھے لیکن کوئی پروانہ اُنہیں متاثر نہ کرسکا ، انکے مقالات اہم جریدوں میں شائع ہوتے تھے ،انکے مقالات کا موضوع ہمیشہ کوانٹم تھیوری اور تصووف کو مدغم کرنے کی کوشش ہو تی تھی , یعنی سائنس اور مذہب کو یکجا کرنے کی کوشش،جس پر اُنہیں سخت تنقید سہنی پڑتی تھی - مگر وہ اپنے آپ کو یہ کہکر مطمین کر لیتیں کہ دُنیا میں کوئی ایک شخص بھی تو ایسا نہیں ہے کہ جس پر تنقید نہ ہو تی ہو - مگر تنقید کرنے والوں کے سخت سوالات کے اُنہیں مدلل جواب دینے پڑتے تھے - رات وہ کافی دیر تک ذہن کو کوانٹم تصووف پرفکس کر کے جاگتی رہی ہے ،جسکا نتیجہ اُسے اپنے نظریہ کی حمایت میں کافی ٹھوس دلائل مل گئے تھے،وہ کافی خوش تھی - اسنے جلدی میں ناشتہ کیا اے/سی خراب ہونے کی وجہ سے کار کے شیشے کھلے ہی رہنے دیئے ، کار چل رہی تھی لیکن وہ توکوانٹم تصووف میں گم تھی گیئر بھی نجانے کون بدل رہا تھا، جیسے ہی کار سگنل پر رُکی ، عورت کی آواز نے اُسے چونکا دیا ، مجھ بد نصیب کی کچھ مدد کر دو ، اسنے دیکھا ایک بچہ عورت کے گود میں ، ایک پیٹ میں اور ایک انگلی میں ہے ، اسنے اتنی زور سے چیخ کر کہا "معاف ..کرو" کہ عورت بیچاری ڈر کر پیچھے ہٹ گئی ،اتنے میں سگنل کُھل گیا - وہ خود اپنے آپ سے شرمندہ ہوگئی کہ یہ اس سے کیا حرکت سر زد ہو گئی ،پڑھا نے میں بھی اُسے مزا نہیں آیا ، اب ذہن میں کوانٹم تصووف کی جگہ - بھکارن کے الفاظ اور اسکے بچوں نے لے لی تھی ، اُسنے واپسی میں گھر جانے کیلئے دوسرا راستہ اختیار کیا کہ کہیں دوبارہ بھکارن کا سامنا نہ کر نا پڑ جائے ۔۔۔گھر پہنچ کر اپنی امی سے باتوں میں مصروف توہو گئی ،لیکن لاشعوری طور پر ایک انجانے خوف اور بیچینی میں مبتلا تھی، وہ اپنی اس کیفیت کو سمجھ نہیں پارہی تھی ، رات کو بیڈ پر لیٹے لیٹے، وہ مختلف زاویوں سے اپنی اس کیفیت کا بطور ایک نفسیات داں تجزیہ کر رہی تھی کہ ایک ایسا خیال اسکے ذہن میں آیا کہ وہ چونک پڑی اور وہ ایک بار پھراُسی طرح زور سے چیخ پڑی " نہیں " لیکن یہ لاشعوری چیخ اس بات کی گوا ہی دے رہی تھی کہ یہ ہی سچ ہے ، چور پکڑا گیا تھا ، چیخ کی آواز سن کر امی بھی آگئیں ، وہ امی سے لپٹ پڑی ، کیا کوئی خواب دیکھا ، نہیں امی سوئی کہاں تھی میں تو جاگ رہی تھی ، امی سوالیہ نظروں سے اسے دیکھنی لگی ، امی آپ مجھے بتائیں ، خالق کائنات نے ہر ایک کو اسکا وصف عطا کیا ہے نا اور اگر کوئی اپنی ہٹ دھرمی سے اس میں کوتاہی کرتا ہے تو کیا اُسے سزا ملے گی ؟ یہ کہتے ہوئے وہ رو پڑی ، امی کو حیرت ہوئی ، شمسہ تم اور یہ آنسو، تم تو چٹان کیطرح مظبوط اور فولاد کی طرح سخت تھیں آج تمہیں یہ کیا ہو گیا ہے کہ اسطرح بہے جارہی ہو ، تم نے آج تک شادی اسلئے نہیں کی کہ میں اتنا زیادہ کما رہی ہوں ،مرد کی غلامی میں کیوں جاؤں حالانکہ کوئی کسی کی غلامی میں نہیں جاتا یہ صرف سوچ کا پھیر ہے ،خالق نے دونوں کو ایک دوسرے کے لئے بنایا ہے ، اسی طرح تم نے 46سال گُزار دیئے لیکن آج میں یہ کیا دیکھ رہی ہوں کہ اتنی ٹھوس چٹاں یوں ریزہ ریزہ ہورہی ، امی یہی خیال نے تو مجھے ایک طرح کے احساس گناہ جیسے احساس میں مبتلہ کردیا ہے - امی آپ میرے لئے دعا کریں وہ رو رہی تھی یہ میں نے کیا کیا اپنے میں موجود مامتا کو میں نے خود ہی مار دیا ، کیا میں گناہ گار ہوں ، وہ مسلسل رو رہی تھی ۔۔۔نہیں میرے بچے ، تمہارے آنسؤں سے تو میں پگھل گئی ہوں ، جبکہ میں تو صرف تمہیں وجود میں لانے کا ایک زریعہ ہو ں ،اصل تمہارا خالق تمہیں کیوں نہیں معاف کرے گا میرے پاس تو اسکی مامتا کا عشیروں کا عشیر بھی نہیں ہے ۔۔۔۔امی میں نے فیصلہ کیا ہے کہ کسی بچی کو گود لے لونگی ، اور شادی بھی کروں گی ۔۔۔میرے بچے کتنے اچھے اچھے رشتے آئے تھے تمہارے لئے ،لیکن تم نےکسی کی کم تنخواہ کا بہانہ بنایا تو کسی کی کم تعلیم کا ، کسی کی مونچھیں تمہیں نہ بھائیں تو کوئی قد میں چھوٹانکلا غرض تمہارے معیار پر کوئی پورا نہ اُترا ، بہر حال صبح کا بھولا شام کو گھر آجائے تو اُسے بھولا نہیں کہتے ،مگر میں حیران ہوں کہ یہ چٹان پگھلی کیسے۔۔۔امی یہ بالکل سچ ہے کہ میری انا بہت موٹی ہوگئی تھی ،لیکن ایک بھکارن کی چوٹ نے میرے اندرکے لاوے کو باہر نکال دیا ، کل میں اس سے ملوں گی ۔۔۔میرے بچے یہ تم نے بہت اچھا سوچا ہے ،میں خود بہت پریشان رہتی تھی کہ میرے بعد تم بالکل اکیلی ہوجاؤگی ۔۔ صبح ناشتے کے بعد شمسہ نے امی سے کہا دُعا کریں کہ وہ عورت پھر اُسے مل جائے ، آج اسنے اے/سی ٹھیک ہونے کے باوجود کار کے شیشے کھلے رکھے ہوئے تھے ، اس مخصوص سگنل سے زرا پہلے کار کی رفتار کو اسنے اسطرح سے اڈجسٹ کیا کہ سگنل اُسے بند ملے - وہ کامیاب رہی ، وہ عورت کار کے قریب آکر صدا لگائی مجھ بد نصیب کی کچھ مدد کردو ،لیکن شمسہ کو دیکھ کر پیچھے ہٹنے لگی - شمسہ نے آواز دےکر اسے اپنے پاس بلایا اور کہا تم اپنے آپ کو بدنصیب کہتی ہو جبکہ تم خوش نصیب ہو کہ تمہارے پاس تو یہ زندہ بولتے ہوئے ہیرے ہیں ، تم تو تخلیق کار ہو، تم نے خالق کی منشا پوری کردی ہے ، تم مکمل عورت ہو ، میں تو ادھوری عورت ہوں ، تم مجھے خوش نصیب سمجھتی ہو( یہ کہتے ہوئے اُسکی آواز بھرا گئی) جبکہ میرے پاس اسنے نوٹوں کی گڈی اسکو دکھاتے ہوئے بولی "یہ بےجان کاغذ کے ٹکڑوں کے سوا کچھ بھی نہیں ہے ،یہ کہتے ہوئے وہ روپڑی ،اور پھر روتے ہوئے بولی اب بولو کون بد نصیب ہے ؟ اتنے میں سگنل کھل گیا اسنے وہ نوٹوں کی گڈی عورت کے حو الے کردی - اور اپنے دل میں ٹھان لیا کہ آئندہ وہ اس راستہ سے کبھی نہیں گزرے گی -بہت شکریہ

No comments:

Post a Comment